طالبان کو جمہوریت کو کیوں مسترد کرنا چاہیے؟ ستمبر 2021ء کے آخر میں امارت اسلامیہ کے قائم مقام وزیراعظم ملا اخوند نے ایک بیان میں فرمایا کہ ان کی حکومت شاہ کے دور کا دستور عارضی طور پر نافذ کرنے کا اراد ہ رکھتی ہے۔ یہ ملک میں جمہوری نظام کے قیام کی ابتدا ہو سکتی ہے اور اس سے اسلامی اقتدار کی جڑی کھوکھلی ہو نے کا خطرہ ہے۔ مسلم دنیا کی بیش تر بڑی غیر مزاحمتی سیاسی جماعتوں نے جمہوری نظام کے تناظر میں ہی اپنی جدوجہد مرتب کی ہے۔ ایران کی اسلامی حکومت اپنے ملک کو جمہوریہ (ریپبلک) کہتی ہے اور وہاں بھی جمہوری عمل شرع مطہرہ کے تناظر میں مقید کیا گیا ہے۔ اسلامی جماعتوں نے جمہوریت کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا ہے اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ جمہوری عمل میں شرکت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس شرکت کے بغیر ان جماعتوں کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ملکی نظام اقتدار میں مداخلت کر سکیں۔ ان کی اپنی ماس بیس اتنی وسیع نہیں کہ وہ جمہوری عمل کا متبادل منظم کر سکیں۔ میری رائے میں (اور خدا کرے میری یہ رائے غلط ہو) ایران کی اسلامی تحریک کے بارے میں بھی یہ بات کہی جا سکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ اسلامی جماعتیں جمہوریت کی ماہیت اور نوعیت سے کماحقہ واقف نہیں ہیں۔ وہ جمہوری عمل کو غیر اقداری تصور کرتی ہیں اور ان کی رائے میں جمہوری عمل کے ذریعہ اسلامی اقدار، اخلاقیات اور روحانیت کا فروغ ممکن ہے۔ اسی طرح وہ سرمایہ دارانہ ریاستی ہیئت اور اس ہیئت میں جمہوری عمل کے مقام کو بھی نہیں پہچانتیں۔ لہٰذا وہ جمہوری عمل کے ذریعہ سرمایہ دارانہ نظاماتی تناظر میں اسلامی حکومتیں قائم کرنے کی جدوجہد کرتی ہیں (کبھی کبھی اس میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں مثلاً اخوان 2012ء میں مصر میں یہ کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی) اس نوعیت کی جدوجہد جمہوری عمل کے ذریعہ سرمایہ دارانہ تحکم کا اسلامی جواز مرتب کرنے پر منتج ہوتی ہے۔ طالبان کی حکومت جمہوری عمل کو قبول کرنے پر مجبور نہیں وہ جمہوری عمل کے ذریعہ وجود میں نہیں آئی۔ اس نے جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ ایک ملک فتح کیا ہے اور اس کی ماس بیس نہایت وسیع اور مضبوط ہے۔ اس نے جس حد تک بھی عوامی تائید حاصل کی ہے وہ جمہوری اقدار کے فروغ کے ذریعہ نہیں اسلامی عصبیت کے ذریعہ حاصل کی ہے۔ اگر طالبان حکومت نے جمہوری عمل کی تنفیذ کو روا رکھا تو وہ لامحالہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ضم ہو جائے گی۔ طالبان ایک اسلامی حکومت تو قائم کر لیں گے لیکن امارت اسلامیہ کبھی ایک اسلامی ریاست نہ بن سکے گی۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ جمہوریت کی حقیقت کو پہچانا جائے۔ جمہوریت کیا ہے؟ دورِ حاضر کی جمہوریت خواہ لبرل، خواہ اشتراکی، خواہ قوم پرست، سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے۔ جمہوری عمل سرمایہ دارانہ انفرادیت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ جمہوری نظام میں ہر فرد اپنے سرمایہ دارانہ حقوق کا طالب ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو آزاد اور خودمختار تصور کرتا ہے۔ چونکہ ان جمہوری عقائد کی علمیاتی بنیادیں اٹھارھویں صدی کی تحریکات تنویر اور رومانویت سے ماخوذ ہیں لہٰذا جمہوری معاشرت میں جو عقلیت فروغ پاتی ہے وہ نفس امارہ کے احکامات کی تابعداری کو فرض عین گردانتی ہے۔اس عقلیت کو ریشنلٹی کہتے ہیں۔ ایک جمہوری ریاست اپنے سٹیزنز کی نفسانی خواہشات کے اتباع کی بنیاد پر ان سٹیزنز سے تائید اور وفاداری طلب کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ آزادیوں کی ضمانت جمہوری ریاست کا دستور دیتا ہے۔ جمہوری ریاست میں دستور کتاب اللہ کی جگہ لے لیتا ہے۔ دنیا کا ہر دستور ہیومن رائٹس کے تقدس کو تسلیم کرتا ہے اور ہیومن رائٹس تحکم قانون سرمایہ کی تنفیذکا ذریعہ ہیں۔ چونکہ ہر جمہوری فرد اپنی آزادی اور خودمختاری کا ذمہ دار ہے لہٰذا ہر جمہوری فرد کا حق اور فرض ہے کہ وہ اپنی بدنی قوتیں، رائے اور املاک بڑھوتری سرمایہ کے لیے وقف کر دے کیونکہ بڑھوتری سرمایہ کے علاوہ آزادی کو فروغ دینے کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ جمہوری معاشرت ایک ذلیل ترین اور خبیث ترین انفرادیت کو جنم دیتی ہے۔ ایک ایسی خود غرض انفرادیت جو حرص و ہوس، شہوت اور غضب سے مغلوب ہو اور جو اپنی زندگی کا مقصد دنیا میں لذات کے حصول کے علاوہ اور کسی چیز کو نہ سمجھے۔ آج سامراج کی یہ کوشش ہے کہ طالبان جمہوری عمل کی تنفیذ کو کسی نہ کسی شکل میں قبول کر لیں کیونکہ سامراج خوب جانتا ہے کہ یوں افغان معاشرت کی اسلامیت کو تحلیل کرنے کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے اور حکومت اسلامی کو تحکم قانون سرمایہ (یعنی عمومی عوامی نفس پرستی) کی اطاعت پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی ریاستی نظام سامراج کے غلبہ سے قبل ہماری بارہ سو سالہ تاریخ میں خلافت عثمانیہ کے سقوط تک اسلامی حکومتیں قائم رہیں۔ کبھی بھی کسی بھی اسلامی ریاست نے کوئی دستور نہیں بنایا (جب امام عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے ریاستی معاملات کو شرع مطہرہ کے مطابق وضع کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے دستور سازی نہیں کی بلکہ علما کے فتاویٰ جمع کیے) اور نہ کسی قدیم سیاسی امام (امام ماوردیؒ ، امام ابویعلیٰ، امام ابن خلدون رحمہم اللہ اجمعین) کے ہاں جمہوری طرزِ ریاست سازی کی کوئی توجیہ نہیں ملتی ہے۔ لہٰذا جمہوری عمل کی تنفیذ خلافِ اولیٰ ہے۔ لہٰذا طالبان کو جمہوری عمل کو فی الفور بالکلیہ رد کر دنیا چاہیے اور 1۔ دستور سازی کے عمل کو ترک کر دینا چاہیے 2۔ ریاستی نظام میں نمایندگی کے اصول کے لیے کوئی گنجائش نہیں پیدا ہونے دینا چاہیے 3۔ معاشرہ کو جمہوری خطوط پر پرمرتب ہونے کی راہ میں ریاستی رکاوٹیں قائم ہونی چاہیئں 4۔ عوام میں یہ احساس پیدا کرنے کی جدوجہد کرنا چاہیے کہ اسلامی ریاستی نظام کی ہر سطح پر حکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوتے ہیں عوام کے نمایندہ نہیں ہوتے۔ 5۔ سامراجی دباؤ میں آ کر ہیومن رائٹس کی تنفیذ کو قبول نہیں کرنا چاہیے اور ریاستی فیصلوں کی بنیاد عوامی خواہشات کی تشکیل نہیں، نصوص صحیحہ کی اتباع پر مبنی ہونی چاہیے۔ 6۔ ہیومن رائٹس کی اسلام کاری کی تمام کوششوں کو رد کردیا جائے کیونکہ یہ شیطانی دھوکہ اور سامراجی سازش ہیں۔ حقیقتاً ہیومن رائٹس حقوق العباد کی ضد ہیں۔ 7۔ نظام اقتدار کو وسعت دے کر اس کو مرکز سے علاقائی سطح تک پھیلانا چاہیے اور کوشش کرنا چاہیے کہ علما ، صوفیاء اور طلبہ کی قیادت کے تحت زیادہ سے زیادہ عوام اس نظام اقتدارمیں شامل ہوں۔ اس نظام اقتدار میں ملک بھر میں کم از کم تین سے چار لاکھ افراد کو اقتداری ذمہ داریاں سونپی جائیں۔ یہ نظام اقتدار سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر منظم کیا جائے۔ 8۔ سیاسی اور دعوتی حکمت عملی کو یوں مربوط کرنا چاہیے کہ عوام میں یہ احساس فروغ پاتا رہے کہ سیاسی عمل حصول رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے، اتباع احکام نفس امارہ کا ذریعہ نہیں ہے۔ 9۔ جمہوری عمل کی تنفیذ سامراجیوں کو افغانستان میں معاشرتی تخریب کاری کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس تخریب کاری کے دو ذرائع ہیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے یونیسف، ڈبلیو ایچ او، یو این سی ایچ آر، یو این ایف پی جو صحت اور تعلیم کے شعبہ میں کارفرما ہیں اور وہ غیر سرکاری تنظیمیں(این جی اوز) جو سامراجی امداد کے سہارے چلتی رہی ہیں۔ ان تمام ایجنسیز کو فی الفور بند کر دینا چاہیے کیونکہ یہ عورتوں میں فحاشی اور عریانی پھیلانے کے ذرائع ہیں اور حکومت کو نظام ترسیل امداد کو قومیا لینا چاہیے۔ یعنی بیرونی ممالک سے جو بھی امداد حاصل ہو افغانستان میں اس کی تقسیم کا کام حکومتی تحویل میں ہو غیر ملکی ایجنسیوں کی تحویل میں نہ ہو۔ کل تک تمام یو این ایجنسیاں سامراج کی آلہ کار بنی رہیں آج وہ افغانستان کی زبوں حالی پر مگرمچھ کے آنسو بہا رہی ہیں وہ صرف سامراجی مقاصد کے حصول کے لیے ہیں اقوام متحدہ کے تمام ادارے امریکا کے جاسوس ہیں۔ طالبان کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ سامراج کے خلاف ان کا جہاد اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ جمہوری عمل اور دستور سازی اس جہاد میں پسپائی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ جمہوری عمل کی تنفیذ کے نتیجہ میں اسلامی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے اسلامی ریاستی نظام کبھی قائم نہیں ہو سکتا۔ جاوید اکبر انصاری
Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/workinggrouponafghaneconomy.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\workinggrouponafghaneconomy.com\daimg.org\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 15