اسلامی بینکنگ طالبان کی حکومت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے
اسلامی بینکاری وہ منحوس حیلہ ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں کے زری (monetory)نظام کو سرمایہ دارانہ معیشت میں ضم کرنے کی شرعی گنجائش نکلتی ہے۔ آج سے تقریباً بیس سال قبل مولانا سلیم اللہ خان کی قیادت میں علمائے دیوبند اس کو قطعاً حرام قرار دے چکے ہیں اور انہوں نے دو اور دو چار کی طرح واضح کر دیا ہے کہ اسلامی بینکوں اور عام بینکوں کے عہود میں شرع کے نکتہ نگاہ سے کسی نوعیت کا کوئی جوہری فرق نہیں۔
اب خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ حاجی محمد ادریس کی سربراہی میں طالبان کی حکومت افغانستان کے زری نظام کو اسلامی بینکاری کے ہیئتی خطوط کے مطابق مرتب کرے گی اور اس کے نتیجہ میں افغانستان میں ایک سرمایہ دارانہ معاشی نظام غالب آ جائے گا۔
سرمایہ داری کیا ہے؟
سرمایہ داری وہ نظام زندگی اور طرزِ حیات ہے جس میں زر (Money & Credit)کی گردش معاشرتی عمل کے ہر شعبہ پر بتدریج غالب آتی چلی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت کا مرکز اور محور وہاں کے فنانشل مارکیٹ ہوتے ہیں۔ ان مارکیٹوں کی کارفرمائی کا مقصد سرمایہ کی بڑھوتری (accumulation of capital)کے عمل کو مستقل مہمیز دینا ہوتا ہے۔ اور یہ عمل سود اور سٹہ بازی کے کاروبار کو جاری رکھ کر منظم کیا جاتا ہے۔ فنانشل مارکیٹ ہر معاشی عمل اور اشیا کی قدر کا تعین اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ اس کے وقوع پذیر ہونے کے نتیجہ میں بڑھوتری سرمایہ پر کیا اثر پڑا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فنانشل مارکیٹوں کے ذریعہ سرمایہ کا نظاماتی تحکم قائم اور مستحکم کیا جاتا ہے۔ سرمایہ اس دولت کو کہتے ہیں جو مستقل اپنی بڑھوتری کو مہمیز دینے کے لیے گردش کرتی رہتی ہے۔ اس وجہ سے ایک انگریز مسلمان عالم حضرت مولانا محمد مارڈیوک پکتھال نے آج سے نوے سال قبل سرمایہ کو ”تکاثر“ کہا تھا۔ سرمایہ دارانہ معاشرے میں حکومت حرص اور ہوس کی قبیح صفتیں کرتی ہیں اور گاہے گاہے حرص اور ہوس کی یہ خبیث قوتیں پورے سیاسی اور ثقافتی نظام کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت لازماً ایک سرمایہ دارانہ ریاستی نظام کی پرورش کرتی ہے۔
اسلامی بینکاری سرمایہ دارانہ ریاست کے قیام کا ذریعہ
ملائشیا کے تمام اسلامی بینک وہاں کے سرمایہ دارانہ مرکزی زری نظام کی ماتحتی میں کام کر رہے ہیں۔ اور پوری دنیا کے تمام اسلامی بینکوں کی طرح ملائشیا کے اسلامی بینک بھی وہاں کے عالمی سود اور سٹہ کے مارکیٹوں کے ڈسپلن کو قبول کرتے ہیں۔ دنیا کے تمام اسلامی بینکوں کی طرح ملائشیا کے اسلامی بینک بھی سودی اور سٹہ بازی کے عہود کی شرعی جوازیت مرتب کرنے میں مصروف ہیں۔ ملائشیا میں کسی مرکزی اسلامی بینک کا نہ کبھی کوئی وجود تھا نہ آج ہے۔
ملائشیا میں دیگر تمام سرمایہ دارانہ ممالک کی طرح گردشی زر کی مقدار اور اس کی قدر بنیادی طور پر اس کے نجی سود اور سٹہ باز کاروباری متعین کرتے ہیں۔ اسلامی بینک بھی زر کی تخلیق کے اس غلیظ کاروبار میں برابر کے شریک ہیں۔ ملائشیا میں سرمایہ دارانہ زر کا وہ حصہ جو مرکزی بینک تخلیق کرتا ہے اوسطاً ہر سال مجموعی زر Moکے مقدار کا ایک نہایت قلیل حصہ ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ زر کی مقدار کا عظیم حصہ سودی کاروبار کے ذریعہ اسلامی اور غیر اسلامی بینک تخلیق کرتے ہیں۔ عملاً ملائشیا کی کرنسی Ringit بھی ویسے ہی غیر مقبول ہے جیسے ڈالر۔ ڈالر کے پیچھے صرف امریکی حکومت کا اعتبار ہے نہ سونا نہ چاندی نہ کوئی شے۔
اسلامی اور غیر اسلامی بینک کاری کے نظام زر کی تخلیق صرف اور صرف بڑھوتری سرمایہ کی رفتار کو مہمیز دینے کے لیے کرتا ہے۔ سود اور سٹہ کے مارکیٹ میں ہمیشہ غیر متوازن ہو جانے کا خطرہ درپیش رہتا ہے۔ جب بھی ادائیگی کے مطالبات سیالیت سے تجاوز کر جاتی ہے مالیاتی بحران رونما کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک سرمایہ دارانہ نظام زر میں مرکزی بینک نجی بینکوں کا ان معنوں میں ماتحت اور قیدی ہوتا ہے کہ اس کو ہمیشہ سرکاری زر Moاس مقدار میں تخلیق کرنا پڑتا ہے جو بڑھوتری سرمایہ کے عمل کو جاری رکھنے اور مالیاتی بحران کے امکان کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
اسلامی نظام بینک کاری کے پاس مرکزی بینک کی اس نظاماتی بےبسی کو دور کرنے کا نہ کوئی تصور ہے نہ ارادہ۔ کیونکہ اسلامی بینک کاری حرص اور حسد (بڑھوتری سرمایہ) کی نظاماتی حاکمیت کو چیلنج کرنے کا نہ کوئی تصور رکھتی ہے نہ ارادہ۔ سرمایہ دارانہ نظام میں سیاست اور معاشرت زری نظام کی تابعدار ہوتی ہے اور اسلامی بینک کاری اس تابع داری کو منظم کرنے کا ایک ایسا طریقہ ہے جس کو شرعی حیلوں سے جواز بخشا گیا ہے۔ اسلامی بینک کاری جدیدیت کی کریہہ ترین شکل ہے۔
طالبان کی حکمت عملی
طالبان اسلامی انقلابی ہیں۔ انہوں نے اکیس سالہ جہاد کے نتیجہ میں ایک اسلامی ریاست قائم کی ہے۔ سامراج کی خواہش ہے کہ اس ریاست کو عالمی سامراجی نظام میں ضم کر لے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اسلامی بینک کاری کا حربہ استعمال کر رہا ہے۔ اگر وہ اپنی اس چال میں کامیاب ہو گیا تو اسلامی اقتدار بتدریج سود اور سٹہ کے مارکیٹوں کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ اور طالبان سرمایہ کے تعقل کو قبول کرنے پر مجبور ہوتے چلے جائیں گے۔ سود اور سٹہ کے مارکیٹوں کی کارفرمائی لازماً افغان معاشرتی اور ریاستی نظام کو عالمی سامراجی سرمایہ دارانہ نظام میں ضم کر دے گی جیسے اس نے ملائشیا اور دیگر مسلم ممالک کو ضم کر دیا ہے۔ملائشیا کی کرنسی کی بیرونی شرح عالمی سودی اور سٹہ مارکیٹوں میں اجارہ دارانہ تجارت سے متعین ہوتی ہے۔ اگر اسلامی بینک کاری کا نظام افغانستان میں قبول کر لیا گیا تو یہی افغانی کی قدر کے تعین کا لامحالہ ذریعہ ہو گا کیونکہ بغیر اس کے عالمی بینکوں کا سرمایہ افغانستان کا رخ نہیں کرے گا۔ قومی کرنسی کی بیرونی قدر کا عالمی فنانشل مارکیٹوں میں تعین کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی اقتدار اور حاکمیت ان حرام خور مارکیٹوں میں رہن رکھ دی جائے۔
اس ہولناک مستقبل سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ
1۔ افغان زری نظام پر مکمل اختیار اور اقتدار نجی اسلامی اور غیر اسلامی بینکوں کا نہ ہو۔ زر (Money) اور قرضہ جات (Credit)سب کے سب حکومت تخلیق اور ترسیل کرے۔
2۔ مرکزی بینک ایک نئی کرنسی جاری کرے جس کا نام اسلامی دینار ہو۔ امریکی ڈالر کی طرح اسلامی دینار بھی غیر متبدل ہو اور اس کا اعتبار حکومت کی ساکھ متعین کرے۔ اس کے مقدار اور شرح تبدل ملکی پیداواری اور ترسیلی ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھ کر حکومت وقتاً فوقتاً متعین کرتی رہے۔
3۔ تمام بینک، انشورنس اور فنانشل کمپنیاں قومیا لی جائیں اور قرضہ جاتی منصوبہ بندی (Credit & planning) کے تحت قرضوں کی ترسیل اور اجرا کا انتظام کیا جائے۔ تمام قرضہ جاتی عہود مضاربت اور مشارکت کی بنیاد پر ہوں۔
4۔ اسلامی دینار کے علاوہ کسی کرنسی(افغانی، روپیہ، ڈالر) کے استعمال کو جرم قرار دیا جائے اور اس جرم کی سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔
5۔ کسی فنانشل مارکیٹ کے قیام کی اجازت نہ دی جائے۔ بین الاقوامی سامراجی فنانشل مارکیٹوں سے تمام تعلقات منقطع کر دیے جائیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین بینک اور اقوام متحدہ کے بھیک بانٹنے والے اداروں سے رابطہ ترک کر دیا جائے۔
6۔ تمام بڑی صنعتیں قومیا لی جائیں اور ان کی قرضہ جاتی ضروریات کریڈٹ پلاننگ کے ذریعہ طے کی جائیں۔
7۔ معاشی منصوبہ بندی کا انحصار بیرونی ماہرین پر ترک کیا جائے کیونکہ ان میں سے زیادہ سرمایہ دارانہ تعقل کے اسیر ہیں۔ ایک وسیع ترین معاشی انتظامیہ قائم کی جائے جس کی تعداد لاکھوں میں ہو۔ کوشش کی جائے کہ ہر دفتر، فیکٹری او رادارہ میں طالبان اور ان کے حمایتی نگران کے طور پر کام کریں۔
8۔ ملک میں جلد از جلد عام لام بندی کا اعلان کیا جائے اور بڑی صنعتوں اور زرعی شعبہ کو ایک جہادی معیشت میں ڈھالا جائے۔
9۔ طالبان کا انقلاب سرمایہ دارانہ انقلاب نہیں جیسا کہ سوویت روس کا تھا لیکن ہم اسلامی اقتدار کے ابتدائی دور میں سوویت روس کی اس ادارتی صف بندی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جو 1918ء تا 1921ء کے دوران کی گئی اور جس نے سوویت روس پر فرانس، انگلستان اور امریکا کی فوج کشی کو اس دور میں ناکام بیان دیا تھا۔ طالبان کو اس دور کی سوویت ادارتی صف بندی کا غور سے مطالعہ کرنا چاہیے۔
طالبان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جہاد ختم نہیں ہوا بلکہ ایک طاقت ور خود کفیل ریاست اور معیشت کے قیام کے مرحلہ میں داخل ہو گیا ہے۔ سامراج کے پاس اس جہاد کو ناکام بنانے کا ایک ہی ذریعہ باقی بچا ہے وہ یہ کہ اسلامی حکومتی اور معاشی نظام کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ضم کر لے وہ اعتدال پسند جوسامراجی حکمت عملی کو سمجھے بغیر اس کے عمل درآمد کی کوشش کر رہے ہیں۔ انقلاب کو ردِ انقلاب میں تبدیل کر رہے ہیں۔ اسلامی بینک کاری اس ہی ردِ انقلابی حکمت عملی کے خلاف ایک چال ہے۔ اگر یہ چال کامیاب ہو گئی تو ہم طالبان کی عدیم المثال بیس سالہ جدوجہد کے تمام ثمرات رفتہ رفتہ کھوتے چلے جائیں گے۔
جاوید اکبر انصاری