نئی کرنسی (اسلامی دینار) کی تشکیل اور خود مختار، خود کفیل اور مضبوط اٖفغان معیشت 

موجودہ دورمیں خود مختار، خود کفیل اور مضبوط معیشت کےلئے سونے ، چاندی سے ذیادہ اہم اس ملک کی کرنسی ہے کیونکہ سونا، چاندی یا کوئی اور قیمتی شے تو ایک محدود مقدار میں ہوگی جبکہ موجودہ کرنسی کو کئی گنا ذیادہ مقدار میں حکومتی منشاء کے مطابق چھپا جاسکتا ہے اس طرح بڑے  پیمانہ پر معاشی سرگرمیاں ممکن ہوسکتی ہیں  جبکہ دوسری جانب سونے چاندی یا کسی قیمتی شے کی بنیاد پر اب نہ تو زر کی تشکیل ہورہی  ہے اور ناہی ا س بنیاد پر ممالک کے درمیان تجارت /لین دین ہورہاہے ۔
اٖفغانستان کی معیشت کی ضروریات کو پورا کرنے ،معیشت کو خود کفیل بنانے ، مضبوط کرنے اور رزق حلال کے مواقع فراہم کرنے کے لئے ایک مضبوط کرنسی اور زری نظام کی ضرورت ہے ۔
اس مضمون میں (1) موجود سرمایہ دارانہ کرنسی (زر) اور زری نظام کا عمومی خاکہ (2) افغانستان میں نئی کرنسی کے قیام کی ضرورت (3) نئے زری نظام میں اداروں کے کردار کے بارے میں اور مخصوص اقدامات کو بیان کیا جائے گا جوکہ نئے زری نظام کی کامیابی کے لئے ضروری ہوں گے-

موجودہ زر اور نظام زر:
 
اس وقت پوری دنیا میں کسی بھی کرنسی کے پیچھے سونا ، چاندی یا کوئی  اور شے نہیں ہے بلکہ صرف حکومتی اعتبار ہے کہ یہ کرنسی حکومت نے جاری  کی ہے لہذا اس کی یہ قانونی حیثیت ہے اور (کسی حادثے کی صورت میں) ضائع ہوئی تو حکومت دوبارہ جاری کردے گی ۔
یہاں یہ بیان کرنا ضرور ہے کہ 1971 میں امریکہ نے نظام زر کی بنیاد (جوکہ سونے پر تھی) کا خاتمہ کیا تھا کیونکہ امریکہ نے ویت نام کی جنگ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے اپنے سونے کے ذخائر کے مقابلے میں کہیں ذیادہ اپنی کرنسی کو چھاپا تھا ۔بہر حال امریکہ نے زر کے پیچھے سونے کے نظام کو اپنے مفاد کے لئے ختم کیا ۔
اب تمام آزاد وخودمختار ممالک اپنی کرنسی کو خود چھاپ کر آزادانہ طور پر اپنے زری نظام کو چلارہے ہیں اب زر اورسونے کے درمیان تعلق باقی نہیں ہے اس وقت عمومی طور پر پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام غالب ہے موجودہ نظام زر بھی سرمایہ دارانہ بنیادوں پر قائم ہے اس نظام زر کی بنیاد سود اور سٹہ ہے- موجودہ زری نظام میں مرکزی بینک درج ذیل کردار ادا کرتا ہے-
 
الف- مرکزی بینک حکومت کا بینک ہوتا ہے:
 
یعنی یہ مرکزی بینک حکومت کو سود پر قرضے فراہم کرتا ہے تاکہ حکومت اپنے اخراجات پورے کرسکے یاد رہے کہ زر کے پیچھے کچھ نہیں کہ لہذا مرکزی بینک خود نوٹ چھاپ کر حکومت کو سود پر قرض دیتا ہے ۔
 
ب- کمرشل اداروں /بینکوں کا بینک ہے :
 
تجارتی اداروں اور بینکوں کا بنیادی کام سود پر قرضے وصول اور فراہم کرنا ہے ۔تجارتی ادارے اور بینک پورے ملک میں پھیلے ہوتے ہیں اس طرح یہ پوری معیشت کو سود کے جال میں جکڑتے ہیں مزید یہ کہ یہ سودی قرضے اصل رقم کے مقابلے میں کئی گناہ ذیادہ جاری کرتے ہیں ۔
تفصیل درج ذیل ہے: لوگ /ادارے کرنسی کی بجائے کریڈٹ کارڈ/ڈیبیٹ کارڈ (پلاسٹک زر) یا بینک کے چیک  کے ذریعہ لین دین کرتے ہیں اس طرح لین دین بجائے حکومتی زر کے بینکوں کے جاری کردہ چیکوں اور پلاسٹک زر سے شروع ہوجاتا ہے اس طرح اصل زر کے مقابلے میں کہیں ذیادہ قرضے جاری ہوجاتے ہیں لہذا اگر کسی موقع پر کمرشل بینک کے پاس لوگوں کے طلب کرنے پر کرنسی نہ ہوتو مرکزی بینک ان کمرشل بینکوں کی مدد کرتا ہے یہی (lender of the last resort) کا مرکزی بینک کا کردار ہے ۔سرمایہ دارانہ  نظام میں مختلف بحرانوں (financial bubbles) کے بننے کی وجہ یہ بھی ہے کہ کمرشل بینک کے بے انتہا قرضہ جاری کرتے ہیں اس طرح عملی طور پر مرکزی بینک حکومت کا نہیں بلکہ تجارتی اداروں اور بینکوں کا بینک ہوتا ہے اور اس طرح تجارتی بینک ہی معیشت کا رخ متعین کرتے ہیں ۔
 
ج- مرکزی بینک کاکردار پالیسی سازی بھی ہوتا ہے :
 مثلاً شرح سود کا تعین وغیرہ  مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے کہ عملی طورپر مرکزی بینک تجارتی بینکوں کا بینک ہوتا ہے , لہذا انہیں کے مفاد میں  سود اور زر کا تعین کرتا ہے- اسطرح موجودہ دور میں زری نظام مختلف بحرانوں (bubbles) اور معاشی ناہمواریوں کے بڑھانے کا باعث بنتا ہے تو دوسری طرح زرق حلال کے ذرائع کو کم کرتا جاتا ہے کیونکہ سودی قرضے اور ادارے بڑھتے جاتے ہیں ۔ یہ کمرشل بینک ،مرکزی بینک کی مدد سے حلال ذرائع آمدن پر قبضہ کرتے جاتے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کو قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔
 
2- نئی کرنسی کی ضرورت واہمیت:
 
افغانستا ن میں جاری کرنسیوں کا اختیار موجودہ حکومت کے پاس نہیں تھا اس کرنسی کی چھپائی اور ذخائر قومی دشمنوں کے پاس ہوسکتےہیں لہذا اسے تبدیل کیا جائے اور نئی کرنسی کو جاری کیا جائے ۔ اس طرح حکومت کا معیشت پر اثر بڑھے گا جبکہ دشمن کا اثر اس حوالے سے ختم ہوجائے گا ۔ 
نئی جاری کردہ کرنسی سے امارت اسلامیہ اپنے اخراجات ترقیاتی کام,جاری پروجیکٹ کی تکمیل اور لوگوں کو حلال روزگار فراہم کرسکتی ہے- 
 
یاد رہے کہ موجودہ دور میں کسی بھی ملک کی کرنسی کے متبادل سونا ،چاندی یا کوئی اور شے نہیں ہے لہذا اگر کوئی قیمتی دھات یا شے رکھ کر متبادل کے طور پر کرنسی چھاپی گئی تو دوسرے ممالک تجارت یا دوسرے ذریعہ سے کرنسی خرید کر قیمتی شے (سونے) متبادل کے طور پر طلب کریں گے جوکہ مرکزی بینک دینے پر پابند ہوگا اور اس طرح نہایت ہی مختصر مدت میں اس قیمتی شے / سونے کے ذخائر ختم ہوجائیں گے اور ساتھ ہی زر کی رسد  بھی محدود ہوجا ئیگی - لہذا موجودہ دور میں محض حکومتی کرنسی (legal Tender) ہی چل  سکتی ہے ۔موجودہ کرنسی کی اسی خصوصیت کی بنا پر کہ حکومت  کرنسی خود چھاپ سکتی ہے - حکومت اور عام لوگوں کے وسائل میں بے پناہ فرق ہوتا ہے :
لوگ اپنے وسائل کی بنیاد پر خرچ کرتے ہیں اور حکومتی زر کو معاشی ضروریات پر لین دین کے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ حکومت اس زر کو چھپاتی ہے اور اپنے وسائل کے لحاظ سے چھاپ اور استعمال کرسکتی ہے لہذا حکومت کے وسائل بہت ذیادہ ہوتے ہیں ۔ایک مخلص قابل اور دیندار حکومت اپنی معیشت کو خود کفیل،مضبوط ،مستحکم اور حلال رزق کا ذریعہ بناسکتی ہے ۔
 

3- نظام زر میں اداروں کا کردار اور اقدامات:
 
اسلامی نظام زر کے اداروں کے کرادر کے تعین کے لئے درج ذیل اقدامات کئے جائیں گے ۔
1۔مرکزی بینک کو وزارت خزانہ کا ایک ذیلی ادارہ قرار دیا جائے اس طرح اس کی آزادانہ حیثیت کو ختم کیا جائے گا۔
2۔مرکزی بینک میں تین ماہ میں اس بات کا اندازہ لگائے کہ ملک میں گردش کرنے والے زر اور قرضہ جات کی  کیا مقدار ہے اور ملکی پیداوار  میں سال کے آخر تک دس فیصد اضافے کے لئے کتنے زر اور غیر سودقرضہ جاتے کی ضرورت ہوگی ۔
3۔ اس تخمینہ کی بنیاد پر ایک نئی کرنسی اسلامی دینار کا اجراء کا انتظام کیا جائے جس کی عددی قدر ایک ہزار افغانی کے برابر ہو۔
4۔ اسلامی دینار بتدریج سال کے آخر نو مہینوں میں جاری کیا جاتا رہے اور اس عرصے کے آخر تک ملک سے افغانی روپیہ ،ڈالر وغیرہ کی گردش ختم کردی جائے (ضمیمہ - 1: نئی کرنسی (اسلامی دینار) معیشت میں پھیلا نے کے اقدامات ، منسلک ہے ) 
5۔تمام بینکوں ،انشورنس کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیاجائے (جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ یہ سودی نظام اور بحرانوں کے ذمہ دار ادارے ہیں)
6۔بیرونی کرنسیوں کی آزادانہ آمدورفت پر پابندیاں عائد کی جائے -
7۔ حکومت تمام غیر ملکی کرنسیوں کے لئے اسلامی دینار کی شرح تبدل وقتعا فقتعا متعین کرتی ریے ۔
8۔ چھ ماہ کے اندر اندر تمام قرضہ جاتی عہدو کو مشارکت اور مضاربت کی بنیاد پر وضع نو کیا جائے ۔
مزید اقدامات:  
	سٹے کی مارکیٹ اور کاروبار کو بند کیا جائے 
	ایک سال کے بعد افغانی اور دوسری غیر ملکی کرنسی کا استعمال غیر قانونی قرار دیا جائے اور استعمال پر سخت سزائیں دی جائیں 
	اشیاء وکرنسی کی ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کی جائے 
 امید ہے کہ وزارت خزانہ ، حکومت افغانستان مندرجہ بالا معاشی تجاویز کے ذریعے روزگار میں اضافے اور معیشت کو خود کفیل و مضبوط بنا سکے گا-  
ضمیمہ - 1: نئی کرنسی (اسلامی دینار) معیشت میں پھیلا نے کے اقدامات 

کسی بھی نئی تبدیل شدہ کرنسی کا معیشت  میں پھیلاؤ کوئی نئی بات نہیں ہے  - پاکستان کے قیام کے ایک سال بعد پاکستان میں بھی نئی کرنسی کا اجراء ہوا تھا ورنہ اس  کی معیشت بھی   دشمن کے رحم وکرم پر ہوتی،  نئی کرنسی  اسلامی دینار کا افغانستان کی معیشت میں گردش کرنا ناصرف معیشت کی ترقی بلکہ اس پر گرفت اور معاشی پالیسیوں کی اثر پزیری  کے لئے بہت ضروری ہے ۔

امارت اسلامیہ ایک مخصوص مدت کی تشہیر کردے گی جس دوران نئی کرنسی (اسلامی دینار) افغان معیشت میں پھیلا نے کے لئے درج ذیل اقدامات کئے جائیں گے ۔

۱- عوام اورادارے نئی کرنسی (اسلامی دینار) کو بینکوں اور /یا مخصوص دفاتر سے تبدیل کروا سکیں  گے۔
2۔ بینکوں میں موجود پرانی کرنسی افغانی کو نئی کرنسی (اسلامی دینار ) سے تبدیل کردیا جائے گا ۔
3۔ حکومتی ادارے ملازمین کو تنخواہ نئی کرنسی (اسلامی دینار ) میں دیں گے ۔
4۔حکومت اپنے جاری اور ترقیاتی کاموں کے لئے نئی کرنسی (اسلامی دینار ) دے گی ۔
5۔ غیر ملکی کرنسی کے بدلے میں نئی کرنسی (اسلامی دینار ) دیئے جائیں گے ۔

مندرجہ بالا اقدامات پر سختی سے عمل ہوگا اس طرح مخصوص مدت میں پرانی کرنسی افغانی کو نئی کرنسی (اسلامی دینار ) سے مکمل طورپر تبدیل کردیا جائے گا۔
 
یاد رہے کہ نئی کرنسی (اسلامی دینار ) کی تشکیل موجودہ حکومت  کے مکمل اختیار میں ہوگی جیسا کہ دنیاکے آزاد اور خود مختار ممالک کی حکومتوں کو اپنی کرنسی چھاپنے کا اختیار ہوتا ہے ۔اور وہ حکومتیں اپنے اس اختیار سے اپنی معاشی پالیسیوں کیلئے اس اختیار کو استعمال کر کے اپنے جاری اور ترقیاتی اخراجات کرتے ہیں جس سے معیشت کو ترقی ملتی ہے  ۔
 


Notice: Function WP_List_Util::pluck was called incorrectly. Values for the input array must be either objects or arrays. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.2.0.) in C:\inetpub\vhosts\workinggrouponafghaneconomy.com\daimg.org\wp-includes\functions.php on line 5867

Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/workinggrouponafghaneconomy.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\workinggrouponafghaneconomy.com\daimg.org\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 15

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *