افغان بینکنگ نظام کو فی الفور قومیانا اور اسلامی دینار کا اجراء کیوں ضروری ہے؟
امریکا نے افغان بینکنگ نظام پر تخریب کارانہ کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ 21 نومبر 2021ء کو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے نمایندہ نیل پرائس (Neil Price) نے اس دہشت گردانہ منصوبہ کی موجودگی کا اقرار کر لیا۔
نیل پرائس نے کہا کہ امریکا ایسے منصوبہ پر کام کر رہا ہے جو افغان فنانشل نظام میں ڈالر اس طرح پھیلائے کہ وہ حکومت افغانستان کی دسترس میں نہ ہوں۔ نیل پرائس نے کہا ”امریکا اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کے ساتھ ان طریقوں کو وضع کرنے کی کوشش کر رہا ہے جن کے ذریعہ افغان فنانشل نظام میں ڈالروں کو اس طرح پھیلایا جائے کہ اس سے طالبان کو کوئی فائدہ نہ ہو“۔ یعنی ڈالر امریکی گھس بیٹھیوں کے ذریعہ عوام تک یوں پہنچائے جاتے رہیں کہ افغان حکومت کو اس ترسیلی عمل پر بالکل کنٹرول نہ ہو۔
نیل پرائس نے کہا ہم طالبان حکومت کو اس وقت تک تسلیم کریں گے جب وہ:
1۔ افغانستان میں ترسیل زر سے تمام پابندیاں ہٹا لے گی اور ان کو کبھی نافذ نہ کرنے کا وعدہ کرے گی۔
2۔ ملک میں سرمایہ دارانہ آزادیاں فراہم کرنے کی ضمانت دے گی۔
3۔ ایک ایسی مخلوط حکومت قائم کرے گی جس میں پرانے غدار حکمران اور امریکی گھس بیٹھیے شامل ہوں گے۔
4۔ امریکا مخالف اسلامی گروہوں کی ناکہ بندی کر کے دکھائے گی۔
کابل کی فتح سے پہلے امریکا نے 2021ء میں غدار حکومت کو 414ملین ڈالر بھیک دینے کا وعدہ کیا تھا۔ جناب نیل پرائس نے کہا کہ وہ یہ بھیک دینا چاہتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی گھس بیٹھیوں کو یہ براہ راست ملے اور اس کی تقسیم میں حکومت افغانستان کا کچھ عمل دخل نہ ہو۔
ہم کیا کریں؟
اب یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ امریکا اپنی عسکری شکست کو سفارتی فتح میں تبدیل کر کے طالبان حکومت کو ختم کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے گھس بیٹھیے پٹھو دوبار ہ برسراقتدار آ جائیں اور وہ افغان معیشت کو ویسے ہی لوٹتے رہیں جیسے 2002ء تا 2020ء لوٹتے رہتے تھے۔ اس جدوجہد میں امریکا اقوام متحدہ یورپی یونین جیسے ممالک ، پاکستان اور ترکی کو استعمال کر رہا ہے۔
اگر امریکا اس میں کامیاب ہو گیا کہ وہ افغان فنانشل نظام میں ڈالروں کی بھرمار حکومتی توسط کے بغیر کر دے تو وہ عملاً افغانستان کے معاشی نظام پر قبضہ کر لے گا۔ افغان کرنسی کا بین الاقوامی شرح تبدل (rate of exchange) معیشت میں ڈالروں کی آمدورفت پر منحصر ہو جائے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ امتناعِ سود اور سٹہ بازی کے تمام اقدامات بے معنی ہو کر رہ جائیں گے۔ افغان تاجر، صنعت کار اور صارف عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے کاسہ لیس ہو جائیں گے۔ عوام کو یہ باور کرانا کہ معاشی عمل تو محض معاد کمانے کا ایک ذریعہ ہے، ناممکن ہو جائے گا۔ معیشت پر اسلامی حکومت کی گرفت تحلیل ہو جائے گی۔ ملکی حاکمیت ختم ہوتی چلی جائے گی اور طالبان کی حکومت ایک داستان پارینہ بن جائے گی۔
امریکی فنانشنل دہشت گردی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ طالبان کی حکومت کی گرفت ملکی معیشت پر آہنی ہو۔ اس آہنی گرفت کو قائم اور کارفرما کرنے کے لیے ضروری ہے کہ:
1۔ ملک میں قائم تمام قومی اور بین الاقوامی بینکوں، انشورنس کمپنیوں اور دیگر فنانشل اداروں کو قومیا لیا جائے اور ان کو ایک نئے ملک گیر ”عوامی اسلامی تمویلی اداروں“ میں ضم کر لیا جائے۔
2۔ دا افغان بینک کو وزارت مالیات (Ministry of Finance) کا ایک ذیلی شعبہ بنا دیا جائے۔
3۔ ملک میں ترسیل زر کے عمل پر سخت ترین کنٹرول نافذ کیا جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ تمام بیرونی زر جو افغانستان آتا ہے طالبان حکومت کی تحویل میں ہو۔ حکومت اس زر کی تقسیم اور تحفظ کی واحد ذمہ دار ہو اور وہ افغان کرنسی کی بین الاقوامی شرح تبدل خود وقتاً فوقتاً متعین کرے۔ عالمی سود اور سٹہ کے مارکیٹوں سے افغان کرنسی کے تمام روابط منقطع کر دیے جائیں۔
4۔ طالبان حکومت آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او سے فوراً انخلا کا اعلان کرے۔
5۔ ایک نئی کرنسی کے اجرا کا انتظام کرے۔ یہ کرنسی اسلامی دینار کہلائے اور اس کی مقدار اور شرح تبدل سونے یا بین الاقوامی تحفظات (foreign exchange reserves) سے منسلک نہ ہو بلکہ اس کی مقدار اور قدر کا تعلق ملک کی پیداواری اور تقسیمی سکت اور ضرورت کے مطابق حکومت وقتاً فوقتاً متعین کرتی رہے۔
6۔ ایران، ترکی، پاکستان، ملائشیا اور انڈونیشیا میں مدارس علما اور اسلامی جماعتوں کے ذریعہ ”افغان اعانتی فنڈ“ قائم کرنے کی کوشش کی جائے اور ان ممالک سے اشیا کے تبدل(barter trade) کی بنیاد پر تجارتی معاہدے کیے جائیں۔
7۔ ان ممالک کے بینکوں سے غیر سودی Currency swap arrangements تشکیل دینے کی کوشش کی جائے۔ ایران سے ایک کرنسی یونین کے قیام کے لیے مذاکرات شروع کیے جائیں۔
WGAE نے ان تجاویز کی تفصیل کئی مقالات میں پیش کی ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ تمام تجاویز قابل عمل ہیں اور افغانستان میں اسلامی اقتدار کے فروغ اور تحفظ کے لیے ان کا انعقاد ضروری ہے۔ اگر طالبان نے اپنی معاشی گرفت مضبو ط نہ کی تو ملک کبھی خودکفیل اور خود انحصاری نہ ہو سکے گا اور امریکا اقتصادی دہشت گردی کے ذریعہ وہ جنگ جیت جائے گا جو وہ میدان میں ہار چکا ہے۔