جہادِ افغانستان ختم نہیں ہوا بلکہ ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے اور سامراجی دشمن آج بھی امارت اسلامیہ پر حملہ آور ہے۔ اس حملہ کے دو رخ ہیں۔ ایک طرف تو سامراج ”انسان پرست امداد (humanitarian aid) کے بہانے افغان سیاسی نظام میں دراندازی کی کوشش کر رہا ہے تاکہ افغانستان کو عالمی سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کے زیردست کر لے۔ اس مقصد کے لیے امریکا پاکستان اور او آئی سی میں شامل ممالک کو استعمال کر رہا ہے۔

دوسری جانب سامراج افغانستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے تاکہ اسلامی حکومت کا معاشرتی اختیار متزلزل ہو ۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں جاری دہشت گردانہ کارروائیاں امریکا کو یہ جواز فراہم کر رہی ہیں کہ وہ افغانستان پر اپنی فضائی بالادستی قائم کرے۔ اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان سے فضائی تنصیبات کی فراہمی کا معاہدہ کیا گیا ہے تاکہ امریکا جب چاہے افغانستان پر ایک No Fly Zone قائم کر دے اور امارت اسلامیہ کی فضائی ناکہ بندی جاری رکھی جا سکے۔

افغان دفاعی حکمت عملی کو ان دو خطرات سے نبٹنے کے لیے وضع کیا جانا چاہیے۔

دہشت گردی سے مقابلہ:

دہشت گردی کی بنیادیں نظریاتی بھی ہیں اور ردِعملی (reactionary) بھی۔ متحاربین میں وہ گروہ بھی شامل ہیں جو اسلامی شناخت رکھتے ہیں لیکن فرقہ واریت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور انقلاب کے اس مرحلہ کی اسلامی قومی ریاست کے قیام و استحکام کے قائل نہیں۔ اس قسم کے گروہوں نے اخوان المسلمین کی 2012ء میں قائم اسلامی حکومت ختم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

ان گروہوں سے نظریاتی مکالمہ جاری رکھنا اور انہیں گاہے گاہے انقلابی ریاستی انتظامی ذمہ داریاں سونپنا ضروری ہے تاکہ یہ دشمن کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں اور انقلاب اسلامی کی دورِ حاضر کی حقیقی ضرورتوں سے واقف ہوں۔

اس کے علاوہ حقیقی ردِ انقلابی (counter revolutionaries) ہیں۔ یہ قوم پرست ہیں اور دہریہ معاشرتی اور ریاستی نظام کے خواہش مند ہیں۔ ان کا طریقہ کار عوام کو انقلابی حکومت سے بدظن کرکے، مایوس اور گمراہ افراد کو خریدنا ہے جو افغانستان میں دہشت گردی سرانجام دیں۔ ان کو پرورش کرنے والے یو این کے ادارے اور این جی اوز کا جال ہے جو اب بھی ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے اور جو امریکی انسانی امداد (humanitarian aid) کے حصول کی امید رکھتا ہے۔

ان ردِ انقلابی تخریب کاروں کے عزائم کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں ایک ایسا تحفظاتی اطلاعی نظام (surveillance system) کارفرما ہو جس کے کارکن کم از کم 330000  ہوں (ملک کی آبادی کا ایک فیصد)۔ یہ تحفظاتی نظام محلوں، بازاروں، دفاتر، قبائل ،دیہی علاقوں، کارخانوں وغیرہ کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہو اور اس پر مرکزی حکومت کی گرفت نہایت مضبوط ہو ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ردِ انقلاب دہشت گردی کرنے والے اداروں کی کڑی نگرانی کی جائے۔ تمام یو این دفاعی ایجنسیوں کو ملک سے نکال دیا جائے۔ تمام این جی اوز کو حکومتی تحویل میں لے لیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام بیرونی امداد حکومت اسلامی وصول کرے اور اس کی تقسیم کی واحد ذمہ دار ہو۔ زری نظام کو جلد از جلد امریکی ڈالر اور پاکستان روپے کی غلاظت سے پاک کیا جائے اور اسلامی دینار سکہ رائج الوقت قرار دیا جائے۔

متوقع فضائیہ دہشت گردی

اگر امریکا افغانستان کو سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے زیر نگیں کرنے میں ناکام ہو گیا تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ افغانستان کی فضائی ناکہ بندی کی جستجو کو تیز کر دے۔ اس فضائی ناکہ بندی کو ناکام بنانا ہماری اہم دفاعی ضرورت ہے۔ افغانستان میں کسی وقت بھی امریکا اپنے حلیف دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ آور ہونے کا بہانہ کر کے افغانستان پر شدید بم باری کر سکتا ہے۔ یہ حملہ صرف جہازوں سے نہیں بلکہ پاکستانی اور خلیجی امریکی تنصیبات سے کروز اور بلیسٹک میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے۔ یہ حملہ شہروں پر بھی ہو سکتا ہے تاکہ عوامی زندگی تتر بتر ہو جائے اور چیدہ چیدہ قائدین اور تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے (جیسا کہ شہید سلیمانی کو بنایا گیا)۔ بم باری کی دھمکیاں اسلامی انقلابی حکومت کو مرعوب کرنے کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ اٹامک حملہ بھی بعید از قیاس نہیں گو کہ اس کے علاقائی اثرات کو محدود رکھنا

امریکا کے لیے نہایت دشوار ثابت ہو سکتا ہے۔

جیسا کہ امریکی اہل کار رچرڈ ہالبروک نے کہا اس نوعیت کی بم باری ”انسانی امداد“ کی فراہمی سے منسلک ہوتی ہے۔ انسانی امداد اور اس سے متعلقہ بم باری کسی ملک کی معیشت کو تباہ کرنے والے ہتھیار ہیں۔ جیسا کہ ویت نام اور کوریا کی جنگوں سے ثابت ہے۔ فضائی دہشت گردی کا مقابلہ ”عوامی جنگ“ (people war)کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا فضائی حملہ سے نبردآزما ہونے کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان میں ایک جہادی معیشت قائم کی جائے۔

جہادی معیشت کی دو اہم خصوصیات ہوتی ہیں۔

1۔ عسکری شعبہ کو پیداواری شعبہ تصور کیا جاتا ہے اور اس کو صنعت و زراعت اور خدمات کے تمام اہم شعبوں سے منسلک کیا جاتا ہے۔

2۔ ہر بالغ مرد کسی نہ کسی عسکری تنظیم سے کل وقتی یا جزوقتی طور پر منسلک ہوتا ہے۔

لہٰذا افغانستان کو فضائی دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں جلد از جلد ملک کے زیادہ سے زیادہ مردوں کو ہتھیاربند اور جذبہ جہاد سے سرشار کرنا ہے اور ملکی معیشت کو اس طرح منظم کرنا ہے کہ پیداواری اور عسکری استعداد میں اضافہ ایک دوسرے سے منسلک ہو۔ عسکری شعبہ ملک میں روزگار اور پیداوار فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہو۔

اس کے ساتھ ساتھ فضائی دہشت گردی کے نقصانات کو محدود رکھنے کے لیے زیر زمین تعمیرات کا ایک وسیع جال بھی آبادیوں کے علاقوں میں بچھانا ہو گا۔ پہاڑی علاقوں اور جنگلات میں دیہی آبادیوں کو منتقل کرنے کے لیے انتظامات کرنے ہوں گے۔ مصنوعی فوجی اڈے تعمیر کرنا ہوں گے تاکہ دشمن دھوکا کھا کر ایسی چیزیں تباہ کرنے کی کوشش کرے جن کی وقعت نہیں۔ یہ تمام حربے ویت نام اور کوریا کی جنگوں میں نہایت کامیابی سے انقلابیوں نے استعمال کیے ہیں۔

ویت نام اور کمبوڈیا میں امریکا  نے کارپٹ بم باری کا جو طریقہ اختیار کیا تھا اور جس کے نتیجہ میں پورے پورے علاقوں پر آگ برسائی جاتی تھی اب مستعمل نہیں سمجھی جاتی  اور افغان جہاد میں اس کا استعمال محدود رہا۔

کوریا کی جنگ میں امریکی دہشت گردی کے لیے وہاں کی 20 فیصد آبادی ہلاک ہوئی۔ یہ دہشت گردی  پندرہ سال جاری رہی ہے۔ اس کے مقابلہ میں امریکا نے بیس سالہ دور اقتدار میں بہت کم افغانی شہید کیے۔ اس سے فضائی دہشت گردی کی محدود ہوتی ہوئی افادیت ثابت ہوتی ہے۔

لیکن متوقع فضائی دہشت گردی کو غیر موثر بنانے کے لیے میزائل اور طیارہ شکن (anti-messile and anti-aircraft) ٹیکنالوجی کی تیاری اور فراہمی کی اشد ضرورت ہے۔ اس ضمن میں حالیہ دور میں اسلامی جمہوریہ ایران نے تیزی سے ترقی کی ہے۔ اور بڑی حد تک اس ترقی نے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات کو اسرائیلی اور امریکی حملوں سے محفوظ رکھا ہے۔ لہٰذا افغان انقلابی حکومت کو ایران کے ساتھ متحد ہو کر دفاعی تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔ دونوں اسلامی ملکوں کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے عسکری پشت پناہ ہیں۔ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کا تحفظ، افغانستان کے عسکری تحفظ کی فرنٹ لائن ہے اور افغان عسکری استحکام ایران کی دفاعی ضرورت ہے۔  

ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری


Notice: Function WP_List_Util::pluck was called incorrectly. Values for the input array must be either objects or arrays. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.2.0.) in C:\inetpub\vhosts\workinggrouponafghaneconomy.com\daimg.org\wp-includes\functions.php on line 5867

Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/workinggrouponafghaneconomy.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\workinggrouponafghaneconomy.com\daimg.org\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 15

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *